Basic Concept of Hajj

Content will be updated soon.

حج کے معنی عربی میں زیارت کاقصد کرنے کے ہیں۔ حج میں چوں کہ ہرطرف سے لوگ کعبے کی زیارت کاقصد کرتے ہیں، اس لیے اس کا نام حج رکھاگیاہے۔ حج اسلام کا چوتھارکن ہے اوروہ اللہ تعالیٰ کی مقررکردہ عبادات وشعائرمیں آخری فرض ہے۔ یہ مسافرت کی دنیامیں ایک بے نظیراوریکتاسفرہے۔ اس سفرمیں ایک مسلمان اپنے بدن اوراپنے قلب کے ساتھ عرفات میں وقوف اوراللہ کے محترم گھرکے طواف کی طرف منتقل ہوتاہے، جسے اسلام نے اللہ کی توحیدکی علامت قراردیا نیز وہ اہل ایمان کی وحدت کا نشان بنایاگیاہے۔ مسلمانوں کو اسی کی طرف ہرروز منہ کر کے نماز پڑھنا واجب قرار دیا گیا ہے۔اور پھر عمر بھرمیں ایک مرتبہ بذات خود اس کی طرف جانااوراس کا طواف کرنافرض کیاہے۔

حج کی ابتداء

دنیاکی دوتہائی سے زیادہ آبادی حضرت  ابراہیم کو پیشوامانتی ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ ، حضرت عیسیٰؑ اورحضرت محمد  ؐ تینوں انہی کی اولادسے ہیں۔ان ہی کی روشن کی ہوئی شمع سے دنیابھرمیں ہدایت کا نورپھیلاہے۔ چار ہزا برس سے زیادہ مدت گزری جب وہ عراق کی سرزمین میں پیداہوئے تھے۔ جس قوم میں اُنہوں نے آنکھیں کھولی تھیں وہ اگرچہ اُس زمانے میں دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم تھی لیکن گم راہی میں بھی وہی سب سے آگے تھی۔وہ جس گھرمیں پیداہوئے وہ خودپجاریوں کاگھراناتھا۔ لیکن حضرت ابراہیم ؑ نے بہت جلد علی اعلان لوگوں سے کہہ دیاکہ : ’’جن کو تم خدائی میں شریک ٹھہراتے ہو، اُن سے میراکوئی واسطہ نہیں۔‘‘ (انعام:۷۹)

                اس اعلان کے بعدحضرت ابراہیم ؑپر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ اُن کو آگ میں زندہ جلانے کا منصوبہ بنایاگیالیکن جب اللہ نے بچالیاتوسب کچھ کو چھوڑکروہ ہجرت کرنے پر مجبورہوگئے۔

 

                وطن سے نکل کر حضرت ابراہیم ؑ ، شام ، فلسطین ،مصراورعرب کے ملکوں میں پھرتے رہے۔اخیرعمرمیں اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل ؑ سے نوازا۔ مگرزندگی کی سب سے بڑی آزمائش میں ڈال دیا اوروہ یہ تھی کہ اُس بڑھاپے میں جب کہ پوری مایوسی کے بعد اسے اولاد نصیب ہوئی ہے، اپنے اکلوتے بیٹے کو اللہ کی خاطرقربان کردے۔ جب حضرت ابراہیم ؑ اس پر بھی راضی ہوگئے توفرمایاہاں! اب تم نے اپنے مسلم ہونے کے دعوے کو بالکل سچا کردکھایااورمیں تجھ کو انسانوں کا امام (پیشوا)بنایاہوں۔ اس طرح حضرت ابراہیم ؑ کوپیشواسوپنی گئی اوروہ اسلام کی عالم گیرتحریک کے لیڈربنائے گئے۔

                حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بھتیجے کو سدوم کے علاقے میں بٹھایاجس کو آج کل مشرق اردن (Transjordan)کہتے ہیں۔ چھوٹے صاحبزادے حضرت اسحاق ؑ کو کنعان کے علاقے میں آبادکیاجس کو آج کل فلسطین کہاجاتاہے۔ بڑے صاحبزاد ے حضرت اسماعیل ؑ کو حجاز میں مکّے کے مقام پر رکھااورایک مدت تک خود ان کے ساتھ رہ کر عرب کے تمام گوشوں میں اسلام کی تعلیم پھیلائی۔پھریہیں دونوں نے وہ مرکزقائم کیاجو کعبہ کے نام سے آج ساری دنیامیں مشہورہے۔ اس مرکزکا انتخاب اللہ تعالیٰ نے خودفرمایاتھااورخود ہی اس تعمیرکی جگہ تجویزکی تھی۔ یہ عمارت محض ایک عبادت گاہ ہی نہ تھی جیسے مسجدیں ہواکرتی ہیںبلکہ اوّل روز ہی سے اس کودین اسلام کی عالمگیرتحریک کامرکز تبلیغ واشاعت قراردیاگیاتھا اوراس کی غرض یہ تھی کہ ایک خداکوماننے والے ہرجگہ سے کھینچ کھینچ کریہاں جمع ہواکریں۔ مل کرخداکی عبادت کریں اوراسلام کاپیغام لے کرپھراپنے اپنےملکوں کوواپس جائیں۔ یہی اجتماع تھا جس کا نام ’’حج ‘‘رکھاگیا۔

                حضرت ابراہیم ؑ کے بعد چندصدیوں میں ہی یہ لوگ اپنے بزرگوں کی تعلیم اوران کے طورطریقے سب بھول گئے اوررفتہ رفتہ ان میں وہ سب گم راہیاںپیداہوگئیں جو دوسری جاہل قوموں میں پھیلی ہوئی تھیں۔ اُسی کعبے میں جسے ایک خداکی پرستش کےلیے دعوت وتبلیغ کامرکزبنایاگیاتھا، سینکڑوں بُت رکھ دیے گئے تھے اورغضب یہ ہے کہ خودحضرت ابراہیم ؑ اورحضرت اسمٰعیل کو بھی بُت بناڈالاجن کی ساری زندگی بُتوںہی کی پرستش مٹانے میںصرف ہوئی تھی۔ حج کی شکل بھی بگڑگئی اوریہ ایک طرح کا میلہ بنادیاگیاتھا جو سال کے سال لگتاتھا۔ اس میں شعراء کے مقابلہ، جھوٹی سخاوت کے مظاہرے اوربرہنہ طواف کیاجاتاتھا۔قربانی کاخون کعبے کی دیواروں سے لتھیڑا جاتااورگوشت دروازے پرڈالاجاتا، اس خیال سے کہ نعوذباللہ یہ خون اورگوشت خداکومطلوب ہے۔ یہ حالت کم وبیش دوہزارسال تک رہی لیکن پھرحضرت ابراہیم ؑ کی اولاد سے ایک انسان کامل اُٹھاجس کا نام پاک محمدؐ بن عبداللہ تھا۔ آپ ؐ نے وہی کام کیا جوحضرت ابراہیم ؑ نے کیا ۔اورپھراُسی اصلی اوربے لوث دین کوتازہ کردیاجسے حضرت ابراہیم ؑ لے کر آئے تھے۔21سال کی مدت میں جب یہ کام آپؐ  مکمل کرچکے تواللہ کے حکم سے آپ نے پھراُسی طرح کعبے کوتمام دنیاکے خداپرستوں کامرکز بنانے کا اعلان کیااورپھروہی منادی کی کہ سب طرف سے حج کے لیے اس مرکزکی طرف آؤ۔اسی طرح حج کا ازسرِ نوآغاز کرنے کے ساتھ ہی جاہلیت کی وہ ساری رسمیں بھی ایک قلم مٹادی گئیں جو پچھلے دوہزاربرس میں رواج پاگئی تھیں۔

 

حج کے  ثمرات

(۱) عالم اسلامی کی بیداری کاموسم

                جس طرح رمضان کامہینہ تمام اسلامی دنیامیں تقوی کاموسم ہے، اسی طرح حج کا  زمانہ تمام روئے زمین  میںاسلام کی زندگی اوربیداری کا زمانہ ہے۔ اس طریقہ سے شریعت بنانے والے حکیم ودانانے ایسابے نظیرانتظام کردیاہے کہ ان شاءاللہ قیامت تک اسلام کی عالم گیرتحریک مٹ نہیں سکتی۔

(۲) وحدتِ ملت کاپرکیف نظارہ

                حج کے زمانہ میں مشرق، مغرب،شمال اورجنوب سے ان گنت قوموں اوربےشمارملکوں کے لوگ ہزاروں راستوں سے ایک ہی مرکزکی طرف چلے آتےہیں۔ شکلیں اورصورتیں مختلف ہیں، رنگ مختلف ہیں،زبانیں مختلف ہیں مگرمرکزکے قریب ایک خاص حد تک پہنچتے ہی اپنے اپنے قومی لباس اُتاردیتے ہیں، اورسارے کے سارے ایک ہی طرزکاسادہ یونیفارم پہن لیتے ہیں۔بولنے کی زبانیں سب کی مختلف ہیں مگرنعرہ سب کا ایک ہی ہے۔ سب ایک یونیفارم میں ایک ہی امام کے پیچھے ،لب کی ایک ہی حرکت، سب کی ایک ہی زبان سب ایک اللہ اکبرکے اشارے پراٹھتے اوررکوع اورسجدہ کرتے ہیں اورسب اسی ایک قرآن عربی کوپڑھتے اورسنتے ہیں۔ یوں زبانوں اورقومیتوں اوروطنوں اورنسلوں کا اختلاف ٹوٹتاہے اوریوں خداپرستوں کی ایک عالمگیرجماعت بنتی ہے۔

(۳) ایک مقصد، ایک مرکزپراجتماع

                دنیابھرکے لوگوں کا ایک مرکزپراجتماع حقیقت میں اتنی بڑی نعمت ہے جو آدم کی اولاد کو اسلام کے سواکسی نے نہیں دی۔ تمام قوموں کے عام لوگوں کا صاف دلی کے ساتھ ملنا، محبت اورخلوص کے ساتھ ملنا، قلبی وروحانی اتحادکے ساتھ ملنا،خیالات ،اعمال اورمقاصدکی یک جہتی کے ساتھ ملنا اورصرف ایک ہی دفعہ مل کر نہ رہ جانابلکہ ہمیشہ ہمیشہ کےلیے ہر سال اسی مرکزپر اسی طرح اکھٹے ہوتے رہنا،کیا یہ نعمت اسلام کے سوابنی نوع انسان کواوربھی کہیںملتی ہے۔

(۴)دنیامیں واحدمرکزامن

                اس نے دنیاکوایساحرم دیاہے جو قیامت تک کےلیے امن کاشہرہے جس میں آدمی توکیاجانورتک کا شکارنہیں کیاجاسکتا، جس میں گھاس تک کاٹنے کی اجازت نہیں،جس کی زمین کاکانٹاتک نہیں توڑاجاسکتاجس میںیہ حکم ہے کہ کسی کی کوئی چیز گری پڑی ہوتواسے ہاتھ تک نہ لگائو۔

(۵)حقیقی مساوات کا مرکز

                اس مرکز میں تمام انسانوں کے حقوق بالکل برابرہیں جو خداکی بادشاہی اورمحمدؐ کی رہ نمائی تسلیم کرکے اسلام کی برادری میں داخل ہوجائیں چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصہ کے رہنے والے ہوں۔ مکہ کی زمین پر اُسے وہی حقوق حاصل ہیں جو خودمکہ والوںکے ہیں۔ پورے حرم کے علاقے کی حیثیت گویامسجدکی سی ہے کہ جو شخص مسجدمیں جاکرکسی جگہ اپناڈیرہ جمادے وہ جگہ اسی کی ہے۔

(۶) تجارتی فائدہ

                مادی نقطۂ نظرسے حج مسلمانوں کے درمیان تجارتی فائدوں کے تبادلوں کابہترین موقع فراہم کرتاہے۔ بعض مسلمان حج کے موسم میں تجارت کوترک کردیتے اوردنیوی فائدہ دینے والے اوررزق لانے والے ہرعمل سے اس خوف سے گریزکرتے کہ کہیں اس سے ان کی عبادت متاثرنہ ہو اوراللہ عزوجل کےہاں ان کااجرضائع نہ ہوجائے تواللہ تعالیٰ نے انہیں تجارت کی اجازت  دے  دی ، جب تک ان کی نیت خالص ہواوران کا  مقصوداصلی حج ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے : ’’اگرحج کے ساتھ تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جائوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘(البقرہ: ۱۹۸)

(۷) حج عالمی کانفرنس

                حج مسلمانوں کےلیے عظیم ترین سالانہ اسلامی کانفرنس کے لیے حاضر  ہوناآسان بناتاہے۔ اس کانفرنس کوکوئی حکومت،رئیس،کوئی تنظیم نہیں بلکہ اس کی دعوت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔اس کانفرنس کے کئی معنی ہیں اورکئی محرکات ہیں۔وہ مسلمانوں میں امیدکوزندہ کرتی ہے اورمایوسی کے عوامل کوہٹاتی ہے ، وہ ہمت بڑھاتی ہے اورعزم کو پختہ کرتی ہے۔ یہ عظیم ترین کانفرنس مسلمانوں کواپنے مسلم بھائی کاحق یاد دلاتی ہے، اگرچہ ان کے دیاردوردورہوں۔وہ اسلامی اخوت اوررابطہ ایمان کی تذکیرکابڑاذریعہ ہے۔ وہ ایک ایسی بھٹی ہے جس کی حرارت میں قومی ووطنی جھگڑے تحلیل ہوجاتے ہیں۔ اس کانفرنس میں اصحاب علم ، اصحابِ اصلاح واصحاب سیاست باہم ملتے ہیں۔ لیکن افسوس صدافسوس مسلمان اس کانفرنس  سےکماحقہ استفادہ نہیں کرتے۔ دوسری عبادتوں کی طرح یہ عبادت بھی ظاہری شکل میں موجودتوہے لیکن روح سے بالکل خالی ہے۔حالاں کہ یہ حج  وہ چیزتھی کہ اگراسے اس کی اصلی شان کے ساتھ اداکیاجاتاتوکافرتک اس کے فائدوں کوعلانیہ دیکھ کر ایمان لےآتے۔اگریہ کام صحیح طریقہ پرہوتاتواندھے اس کے فائدے دیکھتے اوربہرے اس کے فائدے سُن لیتے۔ ہرسال کا حج کروڑوں مسلمانوں کونیک بناتا۔ہزاروں غیرمسلموں کو اسلام کے دائرے میں کھینچ لاتااورلاکھوں غیرمسلموں کے دلوں پر اسلام کی بزرگی کاسکہ بٹھادیتامگرروح نکلنے سے کتنی بیش قیمت چیزکس بری طرح سے ضائع ہورہی ہے

जल्द ही अपडेट किया जाएगा।

শীঘ্রই আপডেট করা হবে।

Share this

One thought on “Basic Concept of Hajj

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *