- English
- اردو
- हिंदी
- বাংলা
Content will be updated soon.
زکوٰۃ چوٹی کی مالی عبادت ہے۔عام طور پر عبادت کےسلسلہ میں نماز کے بعد روزے کا نام لیا جاتا ہے ،اس لیے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نماز کےبعد روزے کا نمبر ہے ۔مگر قرآن مجید سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں نماز کے بعد سب سے بڑھ کر زکوٰۃ کی اہمیت ہے ۔یہ دو بڑے ستون ہیں جن پر اسلام کی عمارت کھڑی ہوتی ہے ۔اس کے ہٹنے کے بعد اسلام قائم نہیں رہ سکتا ۔قرآن حکیم نے دسیوں مرتبہ نماز کے ساتھ اس کا حکم دیا ہے اور اسے کسی جگہ زکوٰۃ ،کہیں صدقہ اور کہیں انفاق کے لفظ سے ذکر کیا ہے ۔
زکوٰۃ کے معنی پاکی اور صفائی کے ہیں ۔اپنے مال میں سے ایک حصہ حاجت مندوں اور مسکینوں کے لیے نکالنے کو زکوٰۃ اس لیے کہا گیا ہے کہ اس طرح آدمی کا مال اور اس مال کے ساتھ خود آدمی کا نفس بھی پاک ہوجاتا ہے ۔جو شخص خدا کی بخشی ہوئی دولت میں سے خدا کے بندوں کا حق نہیں نکالتا اس کا مال ناپاک ہے اور اس مال کے ساتھ اس کا نفس بھی ناپاک ہے۔
زکوٰۃ ایک قدیم عبادت ہےاور سابق انبیاءعلیھم السلام کے ادوار میں ان ہی معنی کے ساتھ معروف تھی ۔یہ اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن اور ایمان کے ستون میں سے ایک ستون ہے ۔اقامت نماز، اللہ تعالی کی وحدانیت اور محمدﷺکی رسالت کی شہادت کے ساتھ زکوٰۃ کی ادائیگی اسلام میں داخل ہونے کا عنوان ہے اور اخوت اسلامی میں شمولیت کا استحقاق ہے ۔یہ ایک لازمی فریضہ ہے ۔اس کا انکار کفراور اس کی عد م ادائیگی فسق ہے اور اسے ترک کرکے مسلمانوں کی جماعت کو چیلنج کرنے والے کے ساتھ جنگ کی جاتی ہے ۔حضرت ابوبکر ؓ نے زکوٰۃ کی ادئیگی سے انکار کرنے والوں سے جنگ کرنے کے لیے ایک فوج تیار کی اور مشہور جملہ کہا :’’بخدا!میں نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرنے والوں کے ساتھ ضرور لڑوں گا اور جو رسول اللہﷺ کو دی جانے والی اونٹ کی مہار بھی اب دینے سے انکار کرے گا تو میں اس کے ساتھ جنگ کروں گا۔
زکوٰۃ کے متعلق تین احکام
زکوٰۃ کے متعلق اللہ تعالی نے قرآن مجید میں تین جگہ الگ الگ احکام بیان فرمائے ہیں :
(۱) سورۃ البقرۃ میں فرمایا : ’’ جو پاک مال تم نے کمائے ہیں اور جو پیدا وار ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی ہے اس میں سے راہِ خدا میں خرچ کرو۔‘‘(البقرۃ ـ۲۷۶)
(۲)سورۃ الانعام میں فرمایا کہ ہم نے تمہارے لیے زمین سے باغ اگائے ہیں اور کھیتیاں پیدا کی ہیں لہذا’’ اس کی پیداوار جب نکلے تو اس میں سے کھائواور فصل کٹنے کے دن اللہ کا حق نکال دو۔‘‘ (سورۃالانعام :۱۴۱) حدیث میں آتا ہے کہ جو پیدا وار آسمانی بارش سے ہو اس میں اللہ کا حق دسواں حصہ ہے اور جو پیداوار انسان کی اپنی کوشش یعنی آبپاشی (سینچائی ) سے ہواس میں اللہ کا حق بیسواں حصہ ہے۔اور یہ حصہ پیداوار کٹنے کےساتھ ہی واجب ہوجاتا ہے۔
(۳)اس کے بعد سورہ توبہ میں آتا ہے :’’ صدقات(زکوٰۃ ) اللہ کی طرف سے مقرر کردہ فرض ہے ۔فقراءکے لیے اور مساکین کے لیے اور ان لوگوں کے لیے جو زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر ہیں اور ان کے لیے جن کی تالیف قلب منظور ہو اور گردنیں چھڑانے کے لیے اور قرض داروں کے لیے اور راہِ خدا میں اور مسافروں کے لیے ،اللہ بہتر جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘ (سورہ توبہ :۴۰)
زکوٰۃکے متعلق آیات کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ جو مال جمع کیا جائے اور اس میں سے راہِ خدا میں صرف نہ کیا جائےتو وہ ناپاک ہوتا ہے ۔اس کے پاک کرنے کی صورت صرف یہ ہے کہ اس میں سے خدا کا حق نکال کر اس کے بندوں کو دیا جائے ۔ان آیات میں صرف زمین کی پیداوار اور سونے چاندی کی زکوٰۃ کا حکم ملتا ہے ،لیکن احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تجارتی مال ،اونٹ ،گائے اور بکریوں میں بھی زکوٰۃ ہے۔
زکوٰۃ کے آٹھ مستحقین
۱۔فقراء: یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس کچھ نہ کچھ مال تو ہے مگر ان کی ضرورت کے لیے کافی نہ ہو۔تنگ دستی میں گزر بسر کرتے ہوں اور کسی سے مانگتے نہ ہوں ۔
۲۔مساکین :یہ بہت ہی تباہ حال لوگ ہیں جن کے پاس اپنے تن کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی کچھ نہ ہو۔حضرت عمرؓ ایسے لوگوں کو بھی مساکین میں شمار کرتے ہیں جو کمانے کی طاقت رکھتے ہوں مگر انہیں روز گار نہ ملتا ہو۔
۳۔عاملین علیھا: ان سے مراد وہ لوگ ہیں جنھیں اسلامی حکومت زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے مقرر کرے ۔ان کی زکوٰۃ کی مد سے تنخواہ دی جائے گی ۔
۴۔مؤلفۃ القلوب :ان سے مرادوہ لوگ ہیں جن کو اسلام کی حمایت کے لیے یا اسلام کی مخالفت سے روکنے کے لیے روپیہ دینے کی ضرورت پیش آئے ۔ان میں وہ نومسلم بھی شامل ہیں جنہیں مطمئن کرنے کی ضرورت ہو۔
۵۔فی الرقاب:اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص غلامی کے بند سے چھوٹنا چاہتا ہو اس کو زکوٰۃ دی جائے تاکہ وہ اپنے مالک کو روپیہ دے کر اپنی گردن غلامی سے چھڑا لے ۔آج کل اس غلامی کا رواج نہیں ہے لیکن جو لوگ قید وبند بھگت رہے ہیں وہ بھی فی الرقاب میں آتے ہیں ۔
۶۔ الغارمین :ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو قرض دار ہوں ۔
۷۔فی سبیل اللہ : یہ عام لفظ ہے جو تمام نیک کاموں پر استعمال ہوتا ہے ۔لیکن خاص طور پر اس سے مراد دین حق کا جھنڈا بلند کرنے کی جدو جہد میں مدد کرنا ہے ۔
۸۔ابن السبیل : یعنی مسافر ۔ اگر چہ مسافر کے پاس اس کے وطن میں کتنا ہی مال ہو لیکن حالت مسافرت میں اگر وہ محتاج ہے تو اسے زکوٰۃ دینی چاہیے۔
زکوٰۃ کے لیے اجتماعی نظام کی ضرورت
اسلام میں تمام کام نظام جماعت کے ساتھ ہوتے ہیں ۔انفرادیت کو اسلام پسند نہیں کرتا ۔اسی لیے زکوٰۃ کو ایک مرکز پر جمع کیا جائے تاکہ وہاں سے وہ ایک ضابطہ کے ساتھ خرچ ہوسکے ۔اسی چیز کی طرف قرآن مجید میں اشارہ فرمایا گیا کہ ’’اے نبی ؐتم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کرو(توبہ :۱۰۳) اسی طر ح عاملین زکوٰۃ کا حق مقرر کرنے سے بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا امام اس کو باقاعدہ وصول کرے اور باقاعدہ خرچ کرے ۔حضور ؐنے فرمایا :’’ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے مال داروںسے زکوٰۃ وصول کروں اور تمہارے فقراءمیں تقسیم کروں۔‘‘
اسی طریقے پر نبی ؐاور خلفائے راشدین نے عمل کرکے دکھایاہے۔تمام زکوٰۃ حکومت اسلامی کےکارکن جمع کرتے تھے اور مرکز کی طرف سے اس کو تقسیم کیا جاتا تھا ۔لیکن آج اسلامی حکومت نہیں ہے اور زکوٰۃ جمع کرکے باضابطہ تقسیم کرنے کا انتظام بھی نہیں ہے تو علاحدہ علاحدہ اپنی زکوٰۃ نکال کر شرعی مصارف میں خرچ کرسکتے ہیں ،مگر تما م مسلمانوں پر لازم ہے کہ زکوٰۃ جمع کرنے اور تقسیم کرنے کے لیے ایک اجتماعی نظم بنانے کی فکرکریں کیوں کہ اس کے بغیر زکوٰۃ کی فرضیت کے فوائد ادھورے رہ جاتے ہیں۔
زکوٰۃ کی فراہمی کی ذمہ داری حکومت کے سپرد کرنے کی کئی وجوہات علامہ یوسف القرضاوی نے بیان کی ہیں:
۱۔ بہت سے افراد کی ضمیریں مردہ ہوجاتی ہیں یا بیمار اور کمزور پڑ جاتی ہیں ،لہذا اگر فقیر کا حق ان پر چھوڑ دیا جائے تو اس کی ادئیگی کی کوئی ضمانت نہیں ۔
۲۔ فقیر اپنا حق ریاست سے وصول کرے نہ کہ غنی سے تاکہ اس کی عزت وشرف محفوظ رہے اور اسے مال دار کے آگے دست سوال پھیلا کر ذلیل نہ ہونا پڑے۔
۳۔یہ معاملہ افراد پر چھوڑنے سے زکوٰۃ کی تقسیم افراط وتفریط کا شکار ہوسکتی ہے ۔کسی ایک فقیر کو دینے والے بکثر ت ہوسکتے ہیں جب کہ دوسرا محروم رہ سکتا ہے حلانکہ وہ زیادہ ضرورت مند ہو۔
۴۔زکوٰۃ کی بہت سی مد ہوتےہیں جن کا اختیار صاحب امر ہی کو ہوتا ہے ۔مثلاًمؤ لفۃ القلوب کو عطیات دینا اور اللہ کی راہ میں جہاد کےلیے ساز وسامان اور افرادی قوت کی تیاری پر صرف کرنا
जल्द ही अपडेट किया जाएगा।
শীঘ্রই আপডেট করা হবে।